مصطفیٰ عامر کی قبرکشائی مکمل، لاش کے نمونے حاصل، مزید تحقیقات جاری
کراچی میں اغوا اور بعد میں قتل کردئیے جانے والے مصطفیٰ عامر کی قبرکشائی کرکے لاش نکال لی گئی، لاش کے نمونے حاصل کر لیے گئے۔ حکام کے مطابق نمونے حاصل کرنے کے بعد لاش کو محفوظ کیا جائے گا۔ نمونے حاصل کرنے کے بعد لاش کو سردخانے منتقل کیا جائے گا۔ ڈی این اے رپورٹ سامنے آنے کے بعد لاش کو لواحقین کے حوالے کردیا جائے گا۔کراچی میں دوست کے ہاتھوں مبینہ طور پر قتل ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کے بعد از تدفین پوسٹ مارٹم کیلئےسیکریٹری صحت نے 3 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیدیا گیا ہے۔مصطفیٰ عامر کی قبرکشائی جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں 21 فروری کو صبح نوبجے کو کی گئی۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید میڈیکل بورڈ کی سربراہ ہیں،
ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹرسری چند، ایم ایل او ڈاکٹرکامران بھی میڈیکل بورڈ کا حصہ ہیں، جب کہ سی پی ایل سی کے سربراہ عامر حسین نے میڈیکل بورڈ کی معاونت کی۔واضح رہے کہ مقتول مصطفیٰ عامر کی کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر کی جانب سے دائر مقتول مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی کی درخواست منظور کرتے ہوئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔یہ کہانی کراچی کے پوش علاقے میں رہنے والے کچھ لوگوں کے لائف اسٹائل کا ایک رخ ہے جہاں اول تو کچھ سامنے نہیں ا?تا اور اگر کبھی ا?جائے تو پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ برائی کی بنیاد پر بننے والے تعلقات کا انجام اکثر بھیانک ہی نکلتا ہے اور اپنے اندر ایک سبق لیے ہوئے ہوتا ہے۔
یہ کہانی نشے، طاقت اور غرور کی ہے جو ایک چھلے ہوئے کے لئے کی تصویر سے ایک خطرناک موڑ لیتی ہے اور ایک نوجوان مصطفیٰ عامر کے درد ناک قتل تک جاتی ہے۔ سینیئر کرائم رپورٹر شاہمیر خان نے وی نیوز کو بتایا کہ چھجنوری کو مصطفیٰ اپنے گھر سے دوست ارمغان کے گھر جانے کیلئےنکلا لیکن وہاں جانے کے بعد لاپتا ہوگیا۔ تلاش میں ناکام ہوجانے کے بعد گھر والوں نے ساتھ جنوری کو مصطفیٰ کے اغوا کا مقدمہ تھانہ درخشاں میں درج کروادیا۔
پولیس نے مصطفیٰ کی تلاش تو شروع کردی۔ وہ اس سے قبل اے این ایف کے ہاتھوں منشیات سپلائی کے مقدمہ میں پکڑا جا چکا تھا لہٰذا اسی بنیاد پر پولیس کو شک تھا کہ مصطفیٰ کا کسی منشیات والوں کے ساتھ جھگڑا ہوا ہوگا اور اسی چکر میں وہ لاپتا ہوگیا شاہمیر خان کے مطابق پولیس کی تحقیقات چل ہی رہی تھی کہ اچانک مصطفیٰ کی والدہ کو ایک کال ا?ئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ہم آپ کے بیٹے سے متعلق آپ کو بتائیں گے کہ وہ کہاں ہے جس کیلئے آپ کو ایک کروڑ روپے دینے پڑیں گے۔
اس کال کے بعد مصطفیٰ کی والدہ نے پولیس کو اطلاع دے دی اور کیس اے وی سی سی منتقل ہوگیا کیوں کہ اس بات کی تصدیق ہوچکی تھی کہ یہ اغوا برائے تاوان کا معاملہ ہے۔شاہمیر خان کے مطابق تحقیق کا دائرہ بڑھانے کے لیے مصطفیٰ کا 4 دوستوں کو تحقیقات میں شامل کیا گیا جن میں ایک ارمغان بھی تھا۔ 8 فروری کو اے وی سی سی کی ٹیم ارمغان کے گھر پہنچی تو اس نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے
تاہم پولیس نے بڑی مشکل سے ارمغان کو حراست میں لے لیا۔شاہمیر خان نے بتایا کہ ارمغان نے پولیس کے سامنے کچھ نہیں اگلا۔ جب مصطفیٰ کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ وہ تو میرا دوست تھا اس کے ساتھ میں ایسا کیوں کروں گا۔ اے وی سی سی سے جب بات نہ بن پائی تو پھر باری ا?ئی انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کی جس نے کام شروع کیا تو ارمغان کے دوست شیراز کا لنک مل گیا جسے کراچی ایئرپورٹ کے نزدیک واقع فلک ناز پلازا سے حراست میں لے لیا گیا۔شاہمیر خان کے مطابق شیراز کا تعلق غریب گھرانے سے ہے اور وہ ارمغان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسے نشہ اور پیسہ ارمغان سے ملتا ہے۔ شیراز دباو¿ برداشت نہ کرسکا
اور اس نے ساری کہانی کھول کر بیان کردی۔ اس نے بتا دیا کہ ارمغان کے گھر مصطفیٰ آیا تھا جس نے مبینہ طور پر ایک تھیلی میں منشیات ارمغان کو دی اور اس کے بعد ارمغان اشتعال میں آیا اور ان کی آپس میں تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد ارمغان نے لوہے کی سلاخ سے مصطفیٰ کو پیٹنا شروع کردیا۔شاہمیر خان نے بتایا کہ ماشا اور انجلین 2 لڑکیاں تھیں جن کی وجہ سے مصطفیٰ اور ارمغان کے مابین مسائل چل رہے تھے۔
یہ دونوں لڑکیاں ارمغان کے اس کال سینٹر میں کام کرتی تھیں جو ستمبر 2024 میں بند ہو چکا تھا۔ ارمغان نے مصطفیٰ کو شدید زخمی کرنے کے بعد اس کے منہ پر ٹیپ لگایا اور اس دوران ارمغان نے مبینہ طور مصطفیٰ کے جسم کا نازک حصہ بھی کاٹ دیا جس کی تصاویر و ویڈیوز بھی بنائی گئیں جو ارمغان کے موبائل کا ڈیٹا ملنے کے بعد سامنے ا?جائیں گی۔شاہمیر خان نے کہا کہ اس کے بعد مصطفیٰ نیم بے ہوشی کی حالت میں گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر حب بلوچستان کے علاقے دوریجی لے جایا گیا
جہاں شیراز کے مطابق ارمغان نے پیٹرول چھڑک کر مصطفیٰ کو آگ لگا دی۔شاہمیر خان بتاتے ہیں کہ اس بیان کے بعد پولیس کو ارمغان کے گھر سے خون کے 2 نمونے ملے جن میں سے ایک کا سیمپل مصطفیٰ کی والدہ جبکہ دوسرا انجلین نامی لڑکی کے خون سے میچ ہوا۔انجلین کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اسے ارمغان نے 6 جنوری کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور اس کا جنسی استحصال بھی کیا تھا جس کے بعد وہ اسپتال میں داخل ہوگئی تھی۔ انجلین اور اس کے والد پر ارمغان نے دباو¿ ڈالا تھا کہ بول دینا کہ حادثہ ہوا تھا جس کے بعد انجلین کو ا?ئن لائن ٹیکسی والے لے کر ا?ئے لہٰذا انجلین کے والد نے اسپتال میں وہی بیان دیا اور بعد میں بیٹی کو لے کر وہاں سے چلے گئے
جس کے بعد سے دونوں لاپتا ہیں۔شاہمیر خان نے ماشا نامی لڑکی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مصطفیٰ اور ارمغان دونوں کی دوست تھی اور دونوں کے اس کے ساتھ جسمانی تعلقات تھے۔ جہاں تک انجلین کی بات ہے تو وہ مصطفیٰ کے سامنے ارمغان کے عضو خاص کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔ ارمغان کے کال سینٹر میں لڑکیاں کام کرتی تھیں جن پر کام کے ساتھ ساتھ ارمغان کا دباو¿ ہوتا تھا اور وہ ان میں سے کچھ لڑکیوں کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوچکا تھا۔ ارمغان کے پاس پیسہ بھی تھا اور منشیات بھی جس کی وجہ سے لوگ اس کے ا?گے پیچھے گھومتے تھے۔