صدر نے متنازع پییکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے

صدر نے متنازع پییکا ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے

صدر پاکستان کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔ آصف علی زرداری نے متنازع پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ ترمیمی بل 2025 پردستخط کردئیے ہیں۔ خیال رہےکہ قومی اسمبلی نے 23 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کیا تھا جسکے بعدگزشتہ روز ہی یہ بل سینیٹ سے بھی منظور ہوگیا تھا۔پیکا ایکٹ ترمیمی بل کیخلاف صحافیوں نے پارلیمنٹ کی کارروائی سے واک آوٹ بھی کیا تھا۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں کیا تھا؟

بل میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا تحفظ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائیگی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی سہولت کاری کریگی. اور انہیں فروغ دیگی، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کے آن لائن تحفظ اور حقوق کو یقنی بنائیگی.سوشل میڈیا تحفظ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان سے قابل رسائی غیر قانونی اور اشتعال انگیز مواد کو ریگولیٹ کریگی.، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کریگی.، اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کریگی. یا منسوخ کریگی. یا معطل کریگی.

اتھارٹی ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو جزوی اور مکمل بلاک کریگی، اتھارٹی کسی درخواست پر ایکشن لیگی، اتھارٹی خلاف ورزی پر جرمانہ کریگی، اتھارٹی متعلقہ حکام کو غیر قانونی اور توہین آمیز موادکو تیس روز کیلئے بلاک کرنے یا ہٹانیکی ہدایت کریگی، تیس دن مزید توسیع بھی ہو سکےگی۔

جعلی یا غلط معلومات سے متاثرہ شخص معلومات کو بلاک کرنے یا ہٹانے اتھارٹی کو درخواست دیگا. اتھارٹی چوبیس گھنٹے میں اس پر فیصلہ کریگی، اتھارٹی میں چئیرمین اور 8 ارکان ہونگے، اتھارٹی میں سیکرٹری داخلہ، چئیرمین پی ٹی اے اور پیمرا ارکان ہوںگے، چیئرمین اور ممبران کی تقرری پانچ سال کیلئے ہوگی، عمر اٹھاون سال سے زیادہ نہ ہو۔

اتھارٹی میں پریس کلب کا رجسٹرڈ صحافی،وکیل ، سافٹ ویئر انجینیئر ، سوشل میڈیا پروفیشنل ، آئی ٹی پروفیشنل بطور ممبران ہونگے،اتھارٹی کے فیصلے کثرت رائے سے ہوںگے، چیئرمین کے پاس غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے اور فوری ایکشن لینےکا خصوصی اختیار ہوگا، البتہ اتھارٹی اس کی 48 گھنٹے میں توثیق کریگی۔

اتھارٹی ایسے مواد کو بلاک کریگی.یا ہٹائیگی جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا. جو عوام کو قانون کی خلاف ورزی کرنے ، قانون ہاتھ میں لینے پر اکسائے ، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جسکا مقصد عوام ، افراد ،گروہ ، حکومتی آفیشل یا اداروں کو ڈرانا ، دہشت زدہ کرنا یا مجبور کرنا ہو، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جو عوام کو سرکاری یا نجی پراپرٹی تباہ کرنے پر اکسائے، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جو ڈرا کر عوام کو انکی قانونی تجارت کرنے سے روکے ، شہری زندگی متاثر کرے۔

ایسا مواد بھی بلاک کیا جائیگا جو مذہب ، فرقے، نسل کیخلاف توہین یا نفرت پر اکسائے جس سے تشدد کو ہوا ملے، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جس میں نازیباں ، عریاں مواد ہو، ایسا مواد بلاک ہو گیا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ جعلی اور غلط ہے، ایسا مواد بلاک کیا جائیگا جو ممبران عدلیہ، آرمڈ فورسز ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے خلاف بہتان لگائے، ایسا مواد بلاک کیا جائےگا جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرے یا ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف تشدد پر اکسائے۔

اسپیکر اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف شدہ معلومات کو سوشل میڈیا پر نشر نہیں کیا جائےگا، کالعدم تنظمیوں اور ان کے نمائندوں کے بیانات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نشر نہیں کیے جائیں گے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شکایات کو دیکھنے شفاف اور مؤثر طریقہ کار اپنائیں گے، سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل بنائی جائےگی، اتھارٹی کی ہدایت پر عمل نہ ہونے یا خلاف ورزی پر اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرےگی، سوشل میڈیا تحفظ ٹربیونل قائم کیے جائیں گے۔

سوشل میڈیا تحفظ ٹربیونل میں ہائی کورٹ کی اہلیت کا جج چیئرمین ہو گا، ٹربیونل میں صحافی ، سافٹ ویئر انجینیئر ہوں گے، اتھارٹی سے متاثرہ فریق، ٹربیونل سے رجوع کرسکتا ہے، ٹربیونل سے متاثرہ شخص 60 دن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔

غلط یا جعلی معلومات دینے پر تین سال تک سزا، 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں۔جو شخص دانستہ طور پر غلط یا جعلی معلومات دے جس سے عوام میں خوف ، انتشار ، بے چینی پھیلے اسے سزا ہوگی۔

تحقیقات، انکوائری، پراسیکیوشن کے لیے نیشنل سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائےگی، نیشنل سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ ختم ہو جائےگا۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں