زراعت اور کاٹن انڈسٹری کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی
ملک میں میں گندم کے بحران کے بعد اب کپاس کے بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا . جس سے زراعت او ر کاٹن انڈسٹری کے شعبے کیلیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات میں اضافے اور مقامی صنعتوں پر عائد اٹھارہ فی صد سیلز ٹیکس کے باعث کپاس کی پیداوار میں شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے
جس سے معیشت کو بڑے نقصان کا خطرہ لاحق ہے۔احسان الحق نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں روئی اور سوتی دھاگے پر عائد اٹھارہ فی صد سیلز ٹیکس کے باعث تاریخی حد تک درآمدات بڑھ گئی ہیں، انھوں نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ (31) اکتوبر 2024 تک پاکستان میں آٹھ لاکھ گانٹھ روئی اور چار لاکھ پچاس ہزار گانٹھوں کے مساوی سوتی دھاگے کی درآمد ہوچکی ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ تیس نومبر 2024 تک روئی کی درآمد گیارہ لاکھ گانٹھ تک پہنچ گئی،
سوتی دھاگے کی درآمد چھ لاکھ گانٹھوں تک ہوچکی ہے، یہ درآمدات قیمتی زرمبادلہ کے نقصان کا باعث بن رہی ہیں جس سے ملکی معیشت پر دباومزید بڑھ رہا ہے۔چیئرمین کاٹن جنرز فورم نے خبردار کیا کہ درآمدات کیوجہ سے مقامی کسان اور کاٹن انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہے۔ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو اگلے کچھ برسوں میں کپاس کی کاشت میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے،
اسکا اثر ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت زراعت کے شعبے پر بھی پڑیگا.انھوں نے گذشتہ برس گندم کی ریکارڈ درآمدات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسکے باعث فلور ملز انڈسٹری اور کسانوں کو شدید معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق اس سال کسانوں نے گندم کم رقبے پر کاشت کی ہے جس سے اگلے برس گندم کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔احسان الحق نے پرائم منسٹر شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ بیرون ملک سے روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات پر سیلز ٹیکس نافذ کی جائے،
اندرون ملک روئی اور سوتی دھاگے کی خریداری کو ڈیوٹی فری کیا جائے، ان اقدامات سے نہ صرف کاٹن انڈسٹری کو سہارا ملیگا بلکہ ملکی زراعت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکیگی.خیال رہے کہ پاکستان کی کاٹن انڈسٹری اور زراعت اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہی ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو کپاس کے بحران کیساتھ دیگر زرعی مصنوعات بھی شدید متاثر ہوسکتی ہیں جو ملکی معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔