فضائی آلودگی اور اسموگ پر قابو پانے کیلئے ماہرین نے وزیراعظم کو تجاویز دیدیں
پاکستان میں فضائی آلودگی کے ماہرین نے اسموگ اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے شہباز شریف کو خط لکھ دیا۔پاکستان ایئر کوالٹی ایکسپرٹس نے اسموگ اورفضائی آلودگی پرقابو پانے کیلئے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں کئی تجاویز دی ہیں۔ ماہرین نے تجویز دی کہ اسموگ سے متاثرہ اضلاع میں گاڑیوں کے امیشن کی سخت جانچ ،اینٹوں کے بھٹے فوری بند، ہیوی ٹرانسپورٹ میں کمی اورآلودگی پیداکرنے والے صنعتی یونٹوں کو بند کردیا جائے،
گروپ نے درمیانی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کیلئے ایک جامع نقطہ نظر کی بھی سفارش کی ہے۔پاکستان کے (27) ایئرکوالٹی ماہرین پرمشتمل گروپ نے بارہ نکات پرمشتمل تجاویز شہباز شریف کو ارسال کی ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں ہوا کے معیار میں شدید کمی خطرناک سطح پر پہنچ گئی ہے، جو صحت عامہ کیلیے ایک سنگین خطرہ ہے جسکی روک تھام کیلیے فوری اور اسٹریٹجک کارروائیوں کی ضرورت ہے ،لاکھوں شہریوں کی صحت اور بہبود کے تحفظ کیلیے مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔ماہرین کا کہنا ہے ایئرکوالٹی انڈیکس کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نومبر اوراکتوبر2024 ریکارڈ پر بدترین رہے ہیں،
ہوا کے معیار کی سطح عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے رہنما خطوط اورپاکستان کے اپنے قانونی حد سے تجاوز کر گئی ہے، لاکھوں شہری سانس کی بیماریوں اور دیگر صحت کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ فضائی آلودگی میں کمی کے سائنسی ثبوتوں اور عالمی بہترین طریقوں پرعمل کرنا ہوگا، گروپ نے تجویز دی ہے کہ تمام اینٹوں کے بھٹے بند کر دیں،اس سے آلودگی میں فوری طور پر پندرہ فی صد کمی آئیگی، گاڑیوں کے امیشن پر قابو پانے اور بھاری نقل و حمل میں کمی کی جائے ،اس سے شہری علاقوں میں نقصان فضائی آلودگی میں مزید پندرہ فی صد کی فوری کمی واقع ہوگی۔ماہرین نے تجویز دی کہ وہ صنعتیں جو ماحولیاتی معیارات کی تعمیل کرنے میں ناکام رہیں انھیں بند کر دیا جانا چاہیے، جس سے زیادہ آبادی والے علاقوں میں فضائی آلودگی کی سطح میں پندرہ فی صد تک کمی واقع ہو گی۔ یہ شٹ ڈاؤن اسموگ کی ہنگامی صورتحال کے دوران لاگو ہونا چائیےاور اس وقت تک جاری رہنا چاہیئے
جب تک کہ آلودگی پر قابو پانے کیلیے روڈ میپ نہ ہو۔گروپ نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ فضائی آلودگی سال بھر کا چیلنج ہے جسکے لئے متعدد شعبوں میں طویل المدتی، مربوط، شواہد پر مبنی حل کی ضرورت ہے۔ بشمول صحت، توانائی، تعلیم،تیل کے معیارات، نقل و حمل، او بین سرحدی تعاون یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ صحت کے نتائج کی بنیاد پر ڈبلیو ایچ او کے خطوط کے مطابق پاکستان کے ائیرکوالٹی کے معیارات پر نظر ثانی کی جائے۔خط میں تجویز دی گئی ہے کہ ملک گیر ریئل ٹائم ایئر کوالٹی مانیٹرنگ نیٹ ورک کا قیام بہت ضروری ہے۔ اس طرح کا نظام مسلسل ریئل ٹائم ڈیٹا فراہم کریگا جس سے بروقت الرٹ ہو سکے گا اور شہریوں اور پالیسی سازوں دونوں کو ہوا کے معیار کے انتظام میں تیز، موثر کارروائی کرنیکا اختیار ملے گا،پائلٹ پراجیکٹ کے طور پرلاہور اور جڑواں شہروں راولپنڈی/اسلام آباد کو صاف ہوا کے حصول کیلئے فوکل پوائنٹس کے طور پر نامزد کیا جائے، شہری منصوبہ بندی کی طرف ایک تبدیلی جو پائیدار عوامی ٹرانزٹ اور کم اخراج والی ٹیکنالوجیز کو ترجیح دیتی ہے،
تمام شعبوں میں تعمیل کو یقینی بنانیکے لئے ہوا کے معیار کے معیار کو ایک اہم ہدف کے طور پر نافذ کرنیکے لیے تمام محکموں میں حکومت کی ریگولیٹری صلاحیت کو بڑھایا جائے۔ماہرین نے خط میں لکھا ہے کہ بجلی کی نقل و حرکت، صاف صنعتی طریقوں اور کھانا پکانے اور گرم کرنے کے متبادل حل جیسی صاف ٹیکنالوجیز کی منتقلی کو تیز کرنے کیساتھ سات توانائی کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ دی جانی چائیے۔ گاڑیوں کے اخراج کے معیارات یورو-6 معیارات کے مساوی ہونگے، ساتھ ہی ایندھن کے معیار کو بھی اپ گریڈ کیا جائیگا.گروپ نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ فضائی آلودگی کے صحت کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کیلئے وبائی امراض کی تحقیق کو ترجیح دی جائے، فضائی آلودگی غیر متناسب طور پر کمزور کمیونٹیز کو متاثر کرتی ہے اور اسکے اہم ماحولیاتی اثرات ہوتے ہیں۔خط میں لکھاگ یا ہے کہ ان عدم مساوات کو دور کرنا پالیسی کی ترقی کا مرکزی مرکز ہونا چاہیے۔ کاشتکاروں کو مشغول کرنے کیلیے ایک ہدفی حکمت عملی اور پائیدار متبادل کو اپنانے میں مدد دینے کیلیے باقیات کے انتظام کیلیے تکنیکی حل متعارف کروایا جائے۔