پاکستان نے تقریباً دو دہائیوں بعد آف شور تیل و گیس کی تلاش کے شعبے میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے 23 بلاکس 4 مختلف کنسورشیمز کو الاٹ کر دیے ہیں۔ یہ عمل ملکی تاریخ کے پہلے شفاف بولی سسٹم کے تحت مکمل ہوا۔
وزارتِ توانائی کے مطابق، 40 آف شور بلاکس میں سے 23 کے لیے موصول ہونے والی کامیاب بولیاں تقریباً 53 ہزار 500 مربع کلومیٹر کے سمندری علاقے پر محیط ہیں۔ ان بلاکس کے حصول کے لیے مقامی توانائی کمپنیوں نے غیر ملکی اداروں، خصوصاً ترک سرکاری کمپنی ٹی پی اے او (TPAO) کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔
کامیاب کمپنیوں میں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (OGDCL)، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (PPL)، ماری انرجیز اور پرائم انرجی شامل ہیں۔ ترک کمپنی ٹی پی اے او نے ایک بلاک میں 25 فیصد حصص کے ساتھ آپریٹر کا کردار بھی سنبھال لیا ہے، جو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے ساتھ مشترکہ معاہدے کے تحت عمل میں آیا۔
وزارت کے بیان کے مطابق، دیگر بین الاقوامی شراکت داروں میں ہانگ کانگ کی یونائیٹڈ انرجی گروپ، اورینٹ پیٹرولیم اور فاطمہ پیٹرولیم شامل ہیں۔ چاروں کنسورشیمز ابتدائی تین سالہ مدت کے دوران تقریباً 80 ملین ڈالر مالیت کی ایکسپلوریشن سرگرمیاں انجام دیں گے۔
ذرائع کے مطابق، اگر منصوبہ ڈرلنگ کے اگلے مراحل میں داخل ہوا تو مجموعی سرمایہ کاری 750 ملین سے ایک ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
پاکستان کا آف شور زون، جو عمان، متحدہ عرب امارات اور ایران کی سمندری حدود کے قریب تقریباً تین لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، 1947 سے اب تک صرف 18 کنوؤں کی کھدائی دیکھ چکا ہے، جو اس کے ممکنہ تیل و گیس ذخائر کے درست تخمینے کے لیے ناکافی سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان اپنی خام تیل کی ضروریات کا تقریباً نصف حصہ درآمد کرتا ہے، جبکہ 2019 میں “کیکڑا ون” منصوبے کی ناکامی کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی آئی تھی۔ تاہم، ماہرین کے مطابق حالیہ پیش رفت توانائی کے شعبے میں نئی امید اور سرمایہ کاری کے رجحان کو فروغ دینے کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔