بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیرِ صدارت اجلاس میں کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ میں 9 ارب روپے کی بے ضابطگیوں اور 2.280 بلین کے غیر قانونی ٹھیکوں کا انکشاف ہوا۔ کمیٹی نے معاملے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کی۔
اجلاس میں اراکین ولی محمد نورزئی، غلام دستگیر بادینی، محمد خان لہڑی، صفیہ بی بی، ایاز مندوخیل سمیت سیکریٹری سائنس و ٹیکنالوجی، سیکریٹری اطلاعات عمران خان، ڈی جی آڈٹ شجاع علی، اور دیگر افسران شریک ہوئے۔
کمیٹی کے مطابق منصوبہ مالی و تکنیکی بنیادوں پر زیادہ نمبر حاصل کرنے والے ادارے این آر ٹی سی کے بجائے ایس سی او کو دیا گیا، جو بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ رولز 2014 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
چیئرمین اصغر علی ترین نے کہا کہ “800 میں سے 600 کیمرے غیر فعال ہیں، 9 ارب خرچ ہونے کے باوجود عوام کو تحفظ نہیں مل سکا، یہ بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی کی واضح مثال ہے۔”
کمیٹی نے 230.335 ملین روپے کی غیر قانونی ایڈوانس ادائیگی کی ریکوری 15 دن میں یقینی بنانے کا حکم دیا، جبکہ جیل خانہ جات میں 11.327 ملین روپے کے نقصانات پر ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔
محکمہ اطلاعات سے متعلق آڈٹ پیراز میں 2018 تا 2021 کے دوران 424.754 ملین کے اشتہارات اور 56.518 ملین کے غیر کٹے ٹیکسز پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ چیئرمین نے کہا کہ “ایک مالی طور پر کمزور صوبے میں اشتہارات پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنا افسوسناک ہے۔”
اجلاس کے اختتام پر چیئرمین اصغر علی ترین نے واضح کیا کہ قواعد کی خلاف ورزی، بدعنوانی اور مالی بے احتیاطی برداشت نہیں کی جائے گی، تمام محکمے مقررہ مدت میں عملدرآمد یقینی بنائیں۔
 
			