غذائی قلت کے خاتمے کے لیے فورٹیفکیشن مؤثر حکمت عملی ہے،شائستہ پرویز ملک
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منگل کے روز فوڈ فورٹیفکیشن (غذائی اجزاء کی مضبوطی) کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس قومی اسمبلی کی نیشنل پارلیمنٹری ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز (SDGs) اور نیوٹرشن انٹرنیشنل (Nutrition International) کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔
اجلاس کی صدارت محترمہ شائستہ پرویز ملک، کنوینر نیشنل پارلیمنٹری ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز، نے کی۔ اس مشاورت کا مقصد غذائیت سے متعلق شواہد پر مبنی پالیسیوں کو فروغ دینا اور فوڈ فورٹیفکیشن کے مؤثر نفاذ کے لیے مختلف شعبوں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانا تھا۔
اپنے ابتدائی کلمات میں محترمہ شائستہ پرویز ملک نے کہا کہ پاکستان میں غذائی قلت اور مائیکرونیوٹرینٹ کی کمی کی شرح اب بھی بلند ہے، خاص طور پر خواتین اور بچوں میں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گندم کے آٹے، خوردنی تیل اور نمک جیسے بنیادی غذائی اجزاء میں ضروری وٹامنز اور منرلز کی ملاوٹ ایک آزمودہ، کم لاگت اور مؤثر طریقہ ہے جو آبادی کے بڑے حصے تک پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام پاکستان کے بین الاقوامی ترقیاتی وعدوں، بالخصوص ایس ڈی جی 2 — بھوک کا خاتمہ، غذائی تحفظ اور بہتر غذائیت کے حصول اور پائیدار زراعت کے فروغ — کے عین مطابق ہے۔ ان کے مطابق غذائیت کا تحفظ صرف صحتِ عامہ کا معاملہ نہیں بلکہ معاشی پیداوار اور پائیدار ترقی کی بنیاد ہے۔
نیوٹرشن انٹرنیشنل کے نمائندوں نے ارکانِ پارلیمنٹ کو تفصیلی بریفنگ دی، جبکہ فوڈ انڈسٹری کے نمائندگان نے مشینری کی اپ گریڈیشن، کوالٹی کنٹرول، اور پری مکس کی فراہمی جیسے عملی چیلنجز پر گفتگو کی۔ کنوینر نے کہا کہ 20 کلو آٹے کے تھیلے پر فورٹیفکیشن کی اضافی لاگت نہایت معمولی ہے، جو قومی صحت اور انسانی سرمائے میں ایک کم خرچ مگر بلند اثر رکھنے والی سرمایہ کاری ہے۔
ارکانِ پارلیمنٹ نے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے درمیان موجود خلا کو پُر کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مؤثر نفاذ کے ساتھ عوامی آگاہی اور رویوں میں تبدیلی کے لیے مہمات چلانا پائیدار نتائج کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عوامی اعتماد اور سمجھ بوجھ کو مضبوط بنانے کے لیے شفاف ابلاغ، علمائے کرام کی شمولیت، اور مقامی رہنماؤں کے ساتھ شراکت اہم ہوگی تاکہ فوڈ فورٹیفکیشن کو صحت و ترقی کے ایک قومی مقصد کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
مزید برآں، پارلیمنٹرینز نے مشاہدہ کیا کہ شہری علاقوں خصوصاً اسلام آباد میں عوامی شمولیت کا طریقہ دیہی علاقوں سے مختلف ہو سکتا ہے، اس لیے مقامی نوعیت کی حکمتِ عملی ملک گیر کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔
اجلاس میں شریک ارکانِ پارلیمنٹ میں محترمہ عاصیہ ناز تنولی، جناب شیر علی ارباب، بیرسٹر دانیال چوہدری، ریاض فتیانہ، طاہر اقبال، نوزت صادق، زیب جعفر، سید قاسم علی گیلانی، زہرہ ودود فاطمی، ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی، اور سینیٹر آفنان اللہ خان شامل تھے۔