وی سسٹرز: خواتین کیلئے خواتین ڈرائیور
پاکستان میں خواتین کے لیے آمدورفت ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہی ہے۔ محدود پبلک ٹرانسپورٹ اور مسلسل ہراسانی کے خوف نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے عمل کو کٹھن بنا دیا ہے۔ مین اسٹریم رائیڈ ہیلنگ ایپس نے کچھ سہولت تو فراہم کی، لیکن ساتھ ہی خواتین کو غیر محفوظ بھی چھوڑ دیا، جہاں ہراسانی اور عدم تحفظ ان کا روزمرہ کا تجربہ بن گیا۔
اسی لیے “وی سسٹرز”، پاکستان کی پہلی خواتین کے لیے خواتین کی رائیڈ ہیلنگ سروس، کسی تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ یہ سروس جون میں متعارف ہوئی اور مختصر وقت میں اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں خواتین کے لیے ایک محفوظ اور پُراعتماد متبادل بن گئی۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ نہ صرف سواری خواتین ہیں بلکہ ڈرائیور بھی خواتین ہی ہیں۔
میرے نزدیک یہ صرف ٹرانسپورٹ کا معاملہ نہیں بلکہ خواتین کے لیے خودمختاری، حفاظت اور عزت نفس کی علامت ہے۔ اقوام متحدہ کی ویمن اور عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 90 فیصد خواتین سفر کے دوران کسی نہ کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں۔ یہی حقیقت ایسے اقدامات کو ناگزیر اور وقت کی ضرورت بناتی ہے۔
اس وقت وی سسٹرز کے پاس 460 سے زائد فعال خواتین کیپٹنز موجود ہیں، جنہوں نے مختصر عرصے میں 3,500 سے زیادہ رائیڈز مکمل کی ہیں۔ یہ پلیٹ فارم جلد ہی کراچی، فیصل آباد اور ملتان تک وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے، جبکہ طویل مدت کا وژن ملک گیر پھیلاؤ ہے۔ اس اقدام کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ خواتین کے لیے آمدنی کے مواقع پیدا کر رہا ہے، جہاں وہ اپنے خاندان کو سہارا دے سکتی ہیں، کرایہ اور بچوں کی فیس ادا کر سکتی ہیں اور اپنی خودمختاری بحال کر سکتی ہیں۔
ان خواتین کیپٹنز کی کہانیاں نہایت متاثر کن ہیں۔ کوئی طلاق یافتہ ماں ہے جو گھر چلانے کے لیے گاڑی چلا رہی ہے، تو کوئی نوجوان لڑکی ہے جو خود سیکھ کر اب دوسری خواتین کو موٹر بائیک چلانا اور ایپ استعمال کرنا سکھا رہی ہے۔ والدین بھی اپنی بیٹیوں کو خواتین ڈرائیورز کے ساتھ بھیجنے میں زیادہ مطمئن ہیں اور مسافروں کے لیے یہ سفر زیادہ آسان اور پُرسکون ہو گیا ہے۔
یقیناً کچھ مسائل ابھی باقی ہیں۔ دیگر پلیٹ فارمز کے مقابلے میں آمدنی کم ہے، جبکہ پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی کمی ڈیجیٹل سکیورٹی کے خدشات کو بڑھاتی ہے۔ ایپ کی پرائیویسی، اعتبار اور مستقل آمدنی کے ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ منصوبہ پائیدار ہو سکے۔
تاہم، ان کمزوریوں کے باوجود وی سسٹرز ایک سنگ میل ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ جب کوئی حل معاشرتی ضرورت سے نکلتا ہے تو وہ صرف سفری سہولت نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب بھی لاتا ہے۔ یہ خواتین کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جانے سے بڑھ کر معاشرے کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے، وہ بھی ایک محفوظ سفر کے ذریعے۔
ایک میڈیا پروفیشنل اور خاتون کی حیثیت سے میرا یقین ہے کہ وی سسٹرز جیسی کاوشیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ خواتین کی حفاظت اور بااختیاری کے حل مقامی طور پر بھی سامنے آ سکتے ہیں، جو کمیونٹی کی بنیاد پر ہوں اور حقیقی تبدیلی لائیں۔ سفر لمبا ہے، لیکن اب لگتا ہے ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔
### خواتین کی ٹرانسپورٹ کے مسائل — تحقیق سے حاصل شدہ حقائق
پاکستان میں خواتین کی سفری مشکلات کا تعلق صرف سہولت سے نہیں بلکہ عزت، تحفظ اور مساوی مواقع سے ہے۔ تحقیق کے مطابق لاہور میں *90 فیصد خواتین کو پبلک بسوں پر ہراسانی* کا سامنا ہوتا ہے، اور *80 فیصد سے زائد خواتین بس اسٹاپس پر ہراسانی کا شکار بنتی ہیں۔ راولپنڈی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق تقریباً **82 فیصد خواتین مسافروں، ڈرائیورز اور بس عملے کی جانب سے ہراسانی کا تجربہ کرتی ہیں۔ یہ صورتحال خواتین کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کرتی ہے، جیسا کہ راستے تبدیل کرنا، وقت بدلنا یا سفر ہی ترک کر دینا۔ ناقص انفراسٹرکچر — جیسے کہ بھیڑ بھاڑ، خراب روشنی، اور غیر محفوظ سہولیات — خواتین کی نقل و حرکت مزید محدود کر دیتے ہیں، اور اسی لیے **99 فیصد خواتین رات کے وقت سفر کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ اس کے برعکس پشاور کے بی آر ٹی ماڈل نے، جس میں خواتین کے لیے علیحدہ حصے، سی سی ٹی وی اور سکیورٹی عملہ موجود ہے، خواتین کی سفری شرح کو **2 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد* تک پہنچا دیا۔ لیکن ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ *94 فیصد خواتین سیکشن 509 (پاکستان پینل کوڈ) کے بارے میں لاعلم ہیں* جو ہراسانی کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے، اور زیادہ تر خواتین ہیلپ لائنز یا رپورٹنگ ایپس سے بھی واقف نہیں۔ یہ تمام حقائق اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ صرف سفر کا نہیں بلکہ وقار، تحفظ اور مساوی حقِ زندگی کا مسئلہ ہے۔