مشتاق احمد خان کہاں ہیں؟ ساتھی کارکن نے واپسی پر ساری روداد سنا دی
اسرائیلی فورسز نے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کرنے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے جہازوں کو بین الاقوامی پانیوں میں روک کر 44 ممالک سے تعلق رکھنے والے 470 رضاکاروں کو حراست میں لیا۔ ان میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی قیادت میں شریک وفد بھی شامل تھا۔
تفصیلات کے مطابق اسرائیلی حکومت نے زیرِ حراست کارکنوں میں سے 137 افراد کو ترکی ڈی پورٹ کردیا، تاہم سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے بارے میں تاحال کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں۔ سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا وہ اب بھی اسرائیلی حراست میں ہیں یا کسی محفوظ مقام پر پہنچ چکے ہیں؟
ادھر ان کے ساتھی ڈاکٹر اسامہ ریاض فلسطین کی حدود میں داخل ہونے سے قبل ہی اٹلی کے جزیرے سسلی سے واپس پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے لاہور میں جمعیت اہل حدیث کے صدر علامہ ہشام الٰہی ظہیر اور نائب صدر حافظ عبدالباسط ڈار سے ملاقات کے دوران سفر کی روداد سنائی، جس میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے بچھڑنے کی افسردگی اور تھکن کا ذکر کیا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے مشتاق احمد کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی رضاکاروں کی درست معلومات نہیں مل رہیں۔ ان کے مطابق وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور دفترِ خارجہ رہائی کی کوششوں میں مصروف ہیں، مگر اہلِ خانہ کو مکمل آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ دفتر خارجہ متاثرہ خاندانوں کو بلا کر انہیں یقین دہانی کرائے، یکجہتی کا اظہار کرے اور جاری کوششوں سے باخبر رکھے۔
عرب میڈیا کے مطابق 400 سے زائد کارکن اب بھی اسرائیلی حراست میں ہیں۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ جن 137 رضاکاروں کو رہا کیا گیا ان کا تعلق امریکہ، اٹلی، برطانیہ، اردن، کویت، لیبیا، الجزائر، موریتانیہ، ملائیشیا، بحرین، مراکش، سوئٹزرلینڈ، تیونس اور ترکی سے ہے۔
تاہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے —
سینیٹر مشتاق احمد خان کہاں ہیں؟ کیا وہ اسرائیلی عدالت میں پیش ہوں گے یا خفیہ طور پر کسی محفوظ مقام تک پہنچ چکے ہیں؟