فتنۂ ہندوستان: صرف اصطلاح یا حکمتِ عملی؟

فتنۂ ہندوستان: صرف اصطلاح یا حکمتِ عملی؟

فتنۂ ہندوستان: صرف اصطلاح یا حکمتِ عملی؟

تحریر:صوفیہ صدیقی

پاکستان کی ریاست نے ایک اہم اقدام کے تحت تمام بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں کو “فتنۂ ہندوستان” قرار دیا ہے۔ یہ اصطلاح پہلی بار خضدار واقعہ کے روز آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک پریس ریلیز میں کی گئی۔ اس نئے بیانیے کے مطابق یہ تنظیمیں پاکستان کے اندر خود رو تحریکیں نہیں بلکہ دشمن ملک، خاص طور پر بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی زیر سایہ اور مالی معاونت، انکی تربیت اور دہشت گرد نیٹ ورکس کے تعاون سے چل رہیں ہیں۔

یہ صرف ایک علامتی اصطلاح نہیں بلکہ پاکستان کے قومی بیانیے* کی ازسرِ نو تشکیل کی کوشش ہے، جو داخلی سلامتی اور بین الاقوامی سفارتی محاذ پر ایک واضح پیغام دیتی ہے: بلوچ ثقافت اور شناخت کو دہشت گردی سے الگ سمجھا جائے۔

“فتنۂ ہندوستان” کی اصطلاح کیوں؟

اسلامی تناظر میں “فتنہ” ایسی بدامنی، بغاوت یا شر کو کہا جاتا ہے جو معاشرتی ہم آہنگی کو تباہ کر دے۔ ریاست کی جانب سے اس اصطلاح کا استعمال درج ذیل نکات کو واضح کرتا ہے:

1. قومی یکجہتی کا فروغ* – یہ باور کرانا کہ بلوچ قوم پاکستان کا حصہ ہے، جبکہ علیحدگی پسند عناصر محض دہشت گرد ہیں۔

2. غیر ملکی مداخلت کو بے نقاب کرنا* – دنیا کو دکھانا کہ ان گروپوں کی پشت پناہی بھارت جیسے ممالک کر رہے ہیں۔

3. بیانیے کی مضبوطی* – عوام کو باور کرانا کہ یہ دہشتگرد حملے دراصل پاکستان کے خلاف ایک پراکسی وار ہیں، نہ کہ کوئی داخلی آزادی کی تحریک۔

حالیہ واقعات اور سیکیورٹی خدشات

یہ بیانیہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بلوچستان کے ضلع خضدار میں *ایک اسکول بس پر خودکش حملے* نے پورے ملک کو غم اور غصے میں مبتلا کر دیا۔ معصوم بچوں کی شہادت نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دہشتگردی کا یہ سلسلہ کون چلا رہا ہے، اور کن کے مفادات سے جڑا ہے؟ اور یہ کہ اسلام جیسا پرامن مذہب کسی کو بچوں پر حملے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

ریاستی ادارے یہ الزام بھارت پر عائد کرتے ہیں کہ وہ بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو تربیت، اسلحہ اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے، تاکہ پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کیا جا سکے۔

آگے کا راستہ کیا ہے؟

اس اصطلاح کے مؤثر ہونے کے لیے صرف الفاظ نہیں، بلکہ عملی اقدامات  بھی درکار ہیں:

بلوچ عوام کو ترقی، روزگار، اور سیاسی نمائندگی کے ذریعے مرکزی دھارے میں لانا*؛

مقامی سطح پر *امن کے سفیروں* کی آواز کو اُجاگر کرنا؛

اور دہشتگردی کے خلاف *قومی اتحاد اور عدل* پر مبنی پالیسی اپنانا۔

ریاست کا پیغام واضح ہے:

دہشت اور فتنہ جہاں سے بھی آئے، ریاستِ پاکستان اسے ناکام بنائے گی — چاہے وہ اندر سے ہو یا سرحد پار سے۔

بلوچستان میں سرگرم بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، بلوچ ریپبلکن آرمی (BRA)، یونائیٹڈ بلوچ آرمی (UBA) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF)* جیسی تنظیمیں گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت میں مصروف ہیں۔ یہ گروہ پاکستان سے بلوچستان کی علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہیں اور مختلف حملوں میں سیکیورٹی فورسز، ترقیاتی منصوبوں، تعلیمی اداروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان کے حملے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں خوف اور بدامنی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں، جس کے اثرات سی پیک جیسے اہم منصوبوں پر بھی پڑے ہیں۔

ان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ بلوچستان کو وسائل میں برابر کا حصہ نہیں دیا جا رہا، اور وہ خود کو ریاستی جبر کا شکار سمجھتے ہیں۔ تاہم، ان کے پرتشدد ہتھکنڈے اور غیر ملکی رابطے ان کے مطالبات کو مشکوک بنا دیتے ہیں، اور پاکستان کے اندر و باہر یہ رائے مضبوط ہو رہی ہے کہ یہ عناصر *دشمن طاقتوں کے آلہ کار* بن چکے ہیں، جو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

حکومت پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک طرف جہاں *دہشتگرد عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی* کرے، وہیں بلوچستان کے پرامن عوام کو سیاسی، معاشی اور تعلیمی میدانوں میں آگے بڑھنے کے بھرپور مواقع فراہم کرے۔ بلوچستان کی نئی نسل کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ پاکستان کے مستقبل کا حصہ ہیں، نہ کہ کسی الگ قوم کا خواب۔

ساتھ ہی، ریاست کو انضمامی پالیسیوں، مقامی قیادت کی شمولیت، اور شفاف احتساب* کے ذریعے بلوچ عوام کا اعتماد جیتنا ہوگا۔

جہاں بندوق سے فتنہ ختم ہو، وہیں دلوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے *مکالمہ، عدل اور ترقی* کی زبان بھی ضروری ہے۔ صرف تب ہی بلوچستان میں امن قائم ہو سکتا ہے — اور پاکستان کا ہر شہری، خواہ وہ گوادر کا ماہی گیر ہو یا خضدار کا طالبعلم، امن، ترقی اور خوشحالی کے سفر میں برابر کا شریک بن سکتا ہے۔

Author

اپنا تبصرہ لکھیں